(ایجنسیز)
اسرائیلی پارلیمنٹ نے مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے روز مرہ کی بنیاد پر جاری دھاوے روکنے والے فلسطینیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے خلاف ایک نیا مسودہ قانون منظور کیا ہے۔ اس قانون کی رو سے یہودی شدت پسندوں کو قبلہ اول میں روکنے والوں کو جرمانے ادا کرنا ہوں گے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اس امر کا انکشاف اردنی حکومت کے ایک اہم ذریعے نے کیا ہے۔ عمان حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ "کنیسٹ" کی کمیٹی برائے امور داخلہ نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی، جس کی رو سے مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کو روکنے والوں کو جرمانے کی سزاؤں کی منظوری دی گئی۔
اردنی حکومت کے مشیر برائے مقدس اسلامی مسیحی عبدالناصر نصار نے خبر رساں ایجنسی "قدس پریس"
کو بتایا کہ صہیونی داخلہ کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ مسودہ قانون جلد ہی اسرائیلی پالیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مجوزہ قانون میں سفارش کی گئی ہے کہ یہودی آباد کاروں کو قبلہ اول میں داخل ہونے سے روکنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں تاکہ وہ یہودیوں کے جبل ہیکل [مسجد اقصیٰ] میں یہودیوں کے داخلے کی راہ میں مزاحم نہ ہوسکیں۔
اس مسودہ قانون میں مزید کہا گیا ہے کہ اردن کا فلسطین کی مقدسات کی نگرانی کے حوالے سے اب کوئی کردار نہیں رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی نگرانی کے تمام امور اب اسرائیل خود دیکھ رہا ہے۔ اسی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہودی رکن کنیسٹ "ریگیٹ" بھی ایک مسودہ قانون کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ اس قانون کی رو سے مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں میں زمان ومکان کے اعتبار سے تقسیم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔